غاروں میں چھپے ہوئے راز دریافت کرتا ہے۔ سمندروں کے چھپے ہوئے خزانے نکالنے کیلئے محنت کرتا ہے۔ اس کے سامنے ایک بہت بڑی دنیا ہے ،پھیلی ہوئی دنیا ،جو اسے دعوت دیتی ہے کہ دنیا کو دریافت کیا جائے۔ اسے حاصل کیا جائے اور انسان اس کام کیلئے محنت کرتا چلا آ رہا ہے۔
انسان اپنی محنت سے اپنے مقاصد حاصل کرتا ہے اور کبھی کبھی اپنی محنت سے دوسروں کی محنت کے انعام چھینتا ہے۔
محنت کرنا انسان کی جبلت ہے۔ اس کے اندر کشمکش ہے اور وہ باہر کشمکش پیدا کرتا ہے۔ سراغ ہستی کی دریافت ایک کٹھن کام ہے۔ یہ ایک چیلنج ہے اور انسان اس چیلنج کو قبول کرنا جانتا ہے۔ راز دریافت کرنے کیلئے انسان نے کئی کئی سال محنت کی۔ کئی کئی نسلیں محنت کرتی رہیں۔ محنت کرتے ہوئے کئی زمانے اور کئی جگ بیت گئے اور تب کہیں جا کر وہ گوہر مقصود ملا۔
وہ گوہر مقصود اگر کوئی فانی شے ہے ،تو محنت رائیگاں ہے۔ اس دنیا میں جہاں محنت نے بڑے بڑے کرشمے سرانجام دیئے ہیں ،وہاں ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ محنتیں رائیگاں ہو گئیں۔ ان کیلئے افسوس!
انسان کی پیدائش سے پہلے ابلیس نے اپنے تکبر کی وجہ سے اپنی صدیوں کی محنت کو خود ہی رائیگاں کر لیا۔ اس کو افسوس تک نہ ہوا۔ اسے معافی کا راستہ نہ سوجھا اور وہ راندہ درگاہ ہوا۔
انسان کو اللہ نے معافی کا راستہ بتایا ہوا ہے۔ انسان اپنی رائیگاں ہونے والی محنتوں پر افسوس کرے تو اس کو محنت کیلئے نئے راستوں سے تعارف ہو سکتا ہے۔ اپنی محنت کی قدر و حفاظت نہ کی جائے تو سب محنت رائیگاں ہے۔ ارشاد ہے کہ افسوس ہے اس بڑھیا پر ،جس نے تمام عمر سوت کاتا اور آخر میں اسے الجھا دیا۔
وہ لوگ جنہوں نے باطل کے راستوں پر محنت کی ،ان کی محنت ان کیلئے ندامت کیلئے علاوہ کیا لائی؟
محنت کرنا تو انسان کی سرشت میں ہے۔
دیکھنے والی بات یہ ہے کہ وہ کس کام کیلئے محنت کرتا ہے۔ ویسے تو ایک جواری جوا خانے میں محنت کرتا ہے۔ وہ اپنے ہارے ہوئے مال کی برآمدگی کیلئے محنت کرتا ہے اور اپنا پیسہ ،وقت اور عاقبت برباد کر بیٹھتا ہے۔
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ وہ طالب علم جو سیاستدانوں کیلئے محنت کرتے ہیں ،اپنی عمر اور ماں باپ کا پیسہ ضائع کرتے ہیں۔ امتحان میں ناکامی لے کر گھروں کو واپس لوٹتے ہیں۔
ان کی محنت نے رائیگاں ہو کر ان کیلئے ندامت لکھ دی۔
کارآمد کیا ہے اور رائیگاں کیا ہے؟ اس کا فیصلہ صرف وہی طاقت کر سکتی ہے جس نے انسان کو پیدا کیا اور اس طاقت کا ارشاد ہے کہ اے انسان! اپنے رب کی طرف محنت کر! رب کی طرف محنت کیا ہوتی ہے؟ رب کی طرف محنت رب کی طرف سے بھیجے ہوئے پیغمبرﷺ کے راستے پر چلتے رہنے کا نام ہے۔ جو لوگ بے جہت اور بے سمت محنتیں کرتے ہیں ،ان کیلئے کیا انجام ہو سکتا ہے۔
گناہ کار کی محنت کا انجام تکمیل گناہ ہے اور تکمیل گناہ ہی انسان کی عاقبت خراب کرنے کیلئے کافی ہے۔ ان محنتوں کو غور سے دیکھا جائے تو پھر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انسان نے باغی راستوں پر جو محنت کی ہے ،اس کا ریکارڈ اسی دنیا کے عبرت کدوں میں محفوظ ہے۔ ویرانیاں چھوڑ جانے والی محنت پر افسوس ہوتا ہے اور اس کے برعکس وہ لوگ جنہوں نے رب کے راستے کی طرف محنت کی ،وہ مرنے کے بعد بھی سرفراز ہیں۔
ان کے آستانے ،ان کے مزار ،ان کی تصانیف اور ان کے ملفوظات آنے والی نسلوں کیلئے مینارہ نور کا کام دیتے ہیں۔ وہ آنے والوں نسلوں کو بتا گئے کہ محنت وہی ہے جو رب کی طرف ہو۔ یوں تو کائنات کا ذرہ ذرہ مصروف محنت ہے اور محنت کرتے کرتے انسان بدنامی کما لیتا ہے ،ناکامی کماتا ہے ،عبرتناک انجام کماتا ہے اور ایسی موت حاصل کرتا ہے جو دیکھنے والوں کیلئے عبرت ہوتی ہے۔
جتنے لوگ دنیا میں سرفراز ہوئے ،وہ سب وہی تھے جو حکم اور امر کے اندر رہ کر محنت کرتے رہے۔ وہ آہستہ آہستہ لیکن یقین کے ساتھ اپنی محنتوں کو دین اور دنیا کی کامیابی کیلئے استعمال کرتے رہے۔
محنت ایک بہت بڑی طاقت ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ انسان کے پاس اڑنے کیلئے پر نہیں ہیں ،لیکن محنت کے ذریعے اس نے بلند پرواز پرندوں کے صرف نشیمن ہی سر نہیں کئے بلکہ ان کی پرواز کو بہت پیچھے چھوڑ دیا۔
محنتی انسان ایک ایک قدم چل کر پہاڑ کی چوٹیوں پر پہنچا۔ دن رات کی محنت سے اس نے مخفی کو آشکار کیا۔ یہ انسان اگرچہ خود ایک بہت بڑا راز ہے لیکن اس کو راز دریافت کرنے کا شوق ہے۔ انسان صرف یہی نہیں کہ بے جان دنیا سے آشنا ہے ،بلکہ جمادات ،نباتات اور حیوانات کے دل کا راز بھی جانتا ہے۔ ذرے کا جگر چیر دیتا ہے اور ایٹم کے اندر چھپی ہوئی طاقت کو دریافت کر لینا انسان کی محنت کے سر سہرا ہے۔
انسان کی محنت کے جتنے بھی قصیدے لکھے جائیں ،کم ہیں لیکن وہ محنت جو کسی کے کام نہ آئے ،اس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے۔
وہی محنتیں کامیاب ہوئیں ،جو انسان کی فلاح کیلئے کی گئیں ،انسان کی خدمت کیلئے کی گئیں ،انسان کو سکون پہنچانے کیلئے کی گئیں ،انسانی زندگی کو ایک خوبصورت زندگی بنانے کیلئے کی گئیں اور وہ محنتیں جو انسان کا سکون برباد کرنے کیلئے کی گئیں ،جن کے ذریعے بحر و بر میں فساد مچا ،جن کے پیچھے طاغوت کار فرما تھا اور جن کے پیچھے انسانی نفس تھا ،اس کی انا تھی ،وہ غلط روی کی محنتیں انسان کے چہرے پر سیاہی لکھ گئیں۔
مبارک ہیں وہ محنتیں ،جن کو قبولیت کی منزل ملی۔ ایسی محنتیں انسان کو شرف عطا کرتی ہیں۔ اپنی شہرت کیلئے کی جانے والی محنت انجام کار انسان کیلئے افسوس پیدا کرتی ہے۔ زندگی دوبارہ نہیں ملتی اور انسان کے پاس غلطیوں کی اصلاح کا وقت بھی نہیں ہوتا۔ ایک ہی دفعہ سوچ سمجھ کر محنت کا آغاز کرنا چاہئے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ کسی ایسے جاننے والے سے پوچھ کر محنت کی جائے جو محنت اور محنت کے انجام کے رشتوں سے باخبر ہو۔
اس سے اپنی محنت کی سمت دریافت کرنا چاہئے۔ اگر سمت صحیح ہو جائے تو کامیابی اور ناکامی دونوں میں انسان کا بھلا ہے۔ مقصد اس سمت کا ہے۔ اگر اللہ کی جانب جانے والی راہ ہماری محنت کا مدعا ہے تو اس راہ میں مر جانا بھی شہادت ہے۔ اس راہ میں ہر مقام ایک منزل اور ہر منزل ایک مقام ہے۔ بے حد کی راہ اتنی ہی بے حد ہے۔ دیکھنے والی بات یہ ہے کہ وہ لوگ جو دنیا میں نمایاں ہوئے ،جنہوں نے نیکی کے راستے پر چراغ جلائے ،جنہوں آنے والے زمانوں کیلئے نشانیاں چھوڑیں ،وہ لوگ کتنے محنتی تھے۔
جب دنیا سو رہی ہوتی تھی ،یہ لوگ جاگتے تھے ،اپنی راتوں کو آہ سحر گاہی سے منور کرتے اور اللہ کے فضل کے سہارے مانگتے اور دعائیں کرتے کہ اے اللہ! ہمیں رائیگاں ہونے والی محنتوں سے بچا اور اللہ ان کو عطا فرماتا ،اپنے راستوں کا شعور اور ان پر نازل فرماتا اپنے کرم کی بارش اور ان کو عنایت فرماتا ان کے رہنما جو ان کا ہاتھ پکڑ کر منزل تک پہنچاتے۔
یہ ہمیشہ ہوتا رہا ہے اور ہمیشہ ہوتا رہے گا۔ عطار ،رومی ،رازی ،غزالی ،جامی ،خسرو اور اقبال سب سے آہ سحر گاہی کے کرشمے ہیں اور آہ سحر گاہی محنتوں کی انتہا ہے۔ گناہ کی تلاش میں محنت کے بجائے گناہ سے بچنے کیلئے محنت کی جائے تو اس کا انجام کچھ اور ہی ہے۔ یہی فضل ہے کہ ہمیں منظور ہونے والی اور مقبول ہونے والی محنت کا شعور ہو جائے ،ورنہ محنت کرنا سرشت تو ہے ہی ،بے شعور محنت کس کام کی۔