Type Here to Get Search Results !
https://pubads.g.doubleclick.net/gampad/live/ads?sz=640x480|970x250|980x120|980x90|970x90&iu=/23129588492&env=vp&impl=s&gdfp_req=1&output=vast&unviewed_position_start=1&url=[referrer_url]&description_url=[description_url]&correlator=[timestamp]

دنیا کے بڑے جاسوس سکینڈل (1)

World Big Spy Scandal

World Big Spy Scandal

دنیا کے بڑے جاسوس سکینڈلز

عرض ناشر

قارئین کو مطالعہ کے لئے ایسے مستند اور معیاری مواد کی فراہمی جو آخری صفحات تک ان کی دل چسپی کا ضامن ہو، ہمارا مطمع نظر ہے۔ کوئی بھی کتاب شائع کرتے وقت ہمارا مقصد اعلیٰ یہ ہوتا ہے کہ اپنے قارئین کے اعلیٰ ذوق کی ترویج کیلئے پر مغز مطالعاتی مواد فراہم کیا جائے تا کہ ان کے ذوق مطالعہ کی تسکین ہوتی رہے۔ اب تک ہم نے نئے اور منفرد موضوعات پر جو کتب شائع کی

ہیں۔ وہ کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں۔

یہ کتاب ایک مشہور زمانہ کتاب World Big Spy Scandal کا اردو ترجمہ ہے۔ اس کتاب میں بھی دنیا کے کونے کونے تک پہنچنے والی مشہور زمانہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کی کارروائیوں کے بارے میں اہم مواد شامل ہے جو بڑی دلچسپی کا حامل ہے۔ اس کتاب میں ایٹمی رازوں کی عالمی چوروں کی وارداتیں اور جاسوسی کے ایسے سیکنڈلز شامل ہیں جنہیں پڑھ کر قارئین دنگ

رہ جائیں گے۔

کرسٹینا کیلر وہ جاسوسہ تھی جس کی وجہ سے میکمیلان جیسے پرائم منسٹر کی چھٹی ہوگئی ۔ گلیوم اور ایلی کو ہن ایسے جاسوس کر دار تھے جو وتی برانڈ تھ اور حافظ الامین جیسے حاکموں کی وجہ سے انہی کی حکومتوں کے زوال کا باعث بن گئے ۔ لار کنز ، کومر، نائین اور رام سوا روپ جینے کرداروں کی یہاں بھی کمی نہیں ہے جنہوں نے ملک وملت کی سودے بازی کی بہت کوششیں کیں لیکن بالآخر پکڑے گئے اور عبرت کی داستانیں بن کر کتابوں کی زینت بن گئے۔

آپ کی آراء ہمارے لئے نہ صرف باعث حوصلہ افزائی بلکہ معاونت بھی فراہم کرے گی۔ اس کتاب میں قارئین کی دلچسپی کے لیے کچھ اضافہ بھی کیا گیا ہے۔


دنیا کے بڑے جاسوس سکینڈلز

اسلام آباد کی بھارتی ایمبیسی سے گرفتار ہونے والی خاتون ڈپلومیٹ مادھوری گپتا پر الزام یہ تھا کہ وہ اس نے کچھ حساس دستاویزات پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کو دیں۔ اس پورے واقعے کی تفصیل پر منبی ایک باب کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔ ایک اور باب پاکستان میں تخریب کاری پھیلانے والے بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ کے پاکستان سیکشن کے ہیڈ کرنل کلبھوشن یادو کا ہے۔ کرنل کلبھوشن یادو کی گرفتاری انٹیلی جنس کی دنیا میں ایک بڑا بریک تھر تھی۔ یہ خاصا دلچسپ باب ہے اور پڑھنے والوں کو پسند آئے گا۔ یہ دونوں باب معروف تحقیقی صحافی مقبول ارشد نے لکھے تھے جو ان کی اجازت اور شکریے کے ساتھ کتاب میں شامل کیے جارہے ہیں۔ اُمید ہے کہ آپ کو یہ کتاب پسند آئے گی۔

ایڈیٹوریل ٹیم




دنیا کے بڑے جاسوس سکینڈلز

اسلام آباد کی بھارتی ایمبیسی سے گرفتار ہونے والی خاتون ڈپلومیٹ مادھوری گپتا پر الزام یہ تھا کہ وہ اس نے کچھ حساس دستاویزات پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کو دیں۔ اس پورے واقعے کی تفصیل پر منبی ایک باب کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔ ایک اور باب پاکستان میں تخریب کاری پھیلانے والے بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ کے پاکستان سیکشن کے ہیڈ کرنل کلبھوشن یادو کا ہے۔ کرنل کلبھوشن یادو کی گرفتاری انٹیلی جنس کی دنیا میں ایک بڑا بریک تھر تھی۔ یہ خاصا دلچسپ باب ہے اور پڑھنے والوں کو پسند آئے گا۔ یہ دونوں باب معروف تحقیقی صحافی مقبول ارشد نے لکھے تھے جو ان کی اجازت اور شکریے کے ساتھ کتاب میں شامل کیے جارہے ہیں۔ اُمید ہے کہ آپ کو یہ کتاب پسند آئے گی۔

ایڈیٹوریل ٹیم



.

دنیا کے بڑے جاسوس سکینڈلز

1

پولارڈ سکینڈل


امریکن خفیہ ایجنسیاں یہ جان کر حیران و ششدر رہ گئیں کہ چند مہربان کردار ان کی ناک کے عین نیچے دفاعی رازوں کی چوری اور فروخت میں کہیں سے کہیں پہنچ چکے ہیں۔ امریکہ کا اتحادی نمبر ایک اسرائیل تو جاسوسی میں اس حد تک آگے نکل گیا ہے جہاں تک امریکہ کا کوئی بدترین دشمن بھی نہیں جاسکا۔ اس قسم کی جاسوسی سرگرمیوں

کی وبا 1985ء میں خوب پھلی پھیلی تھی۔ یہ سب کیسے ہوا؟ آئیے پڑھتے ہیں۔

امریکی محکمہ انصاف کے عہدیدارواں نے نومبر 1985ء کے آخری ہفتے میں ان جاسوسی سرگرمیوں اور الزامات کی بنا پر تین فائلیں عدالت میں پیش کیں، جس سے جاسوسی و ہائی قسم کا موضوع اور مواد اخبارات کے ہاتھ لگ گیا اور انہوں نے پورے امریکہ میں ایک طیش اور خبط آمیز ماحول پیدا کر دیا ۔ عوام الناس کا یہ ذہن بن رہا تھا کہ امریکی مسلح افواج کے ساتھ اسلحہ، دفاعی دستاویزات اور بہت سے دوسرے قیمتی مواد کی چوری کی سازش میں روہی جہنی اور اسرائیلی خفیہ

ایجنٹس سرگرم عمل رہے ہیں ۔ اس راہ عمل پر سب کو سر گرم کر نیوالا کردار یو ایس بحریہ کا کانا تن ہے پولارڈ تھا۔ یہ دلچسپ بات ہے کہ یہ وہ وقت تھا جب صدر ریگن نے واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ ہم نے اپنے ملک کو ہمہ قسم کی جاسوسی سرگرمیوں سے صاف کرنے کا عزم کر لیا ہے لہذا جو کوئی بھی ہمارے ہتھے چڑھ گیا،

 سخت سزا سے نہیں بچ سکے گا۔



دنیا کے بڑے جاسوس سکینڈلز ذرا تصور کریں کہ امریکہ کو اُن جاسوسی سرگرمیوں کے دائرہ کار کو کنٹرول کرنے کیلئے ساٹھ

ہزار کے قریب دفاعی ملازمین کو دنیا بھر میں تعینات کرنا پڑا۔

1983ء میں ان جاسوسی سرگرمیوں میں خاطر خواہ اضافہ ہو گیا۔ امریکی جاسوسی کا سد باب ایجنسیوں کے لئے ایک مستقل دردسر بن گیا۔ 1983ء میں ان جاسوسی مقدمات کی تعداد پانچ تھی ، 1984ء میں چودہ اور 1985ء میں سترہ تک پہنچ گئی تھی۔

یہ حالات دیکھ کر امریکی انتظامیہ مل گئی اور ان حالات کی ذمہ داری وفاقی سطح پر تعینات ڈپٹی چیف تفتیشی بیورو پولار پر ڈالی گئی ۔ اس ادارے کے سربراہ فلپ پار کرنے بعد ازاں ان جاسوس سرگرمیوں کے بارے میں بڑے وثوق سے کہا کہ ان کے محکمے میں کون کیا تھا اور کن سرگرمیوں میں ملوث تھا، وہ سب جان گیا ہے اور آئندہ کیلئے ایسی سرگرمیوں پر مشتمل مقدمات

کا وجود تک نہیں ملے گا۔

ان جاسوس سرگرمیوں میں ملوث دوسرا کردار رونالڈ ولیم پیلٹن تھا، وہ تھا تو ماہر مواصلات مگر

جاسوسی کاموں کا گرو مانا جاتا تھا۔ فضائی مواصلاتی جاسوسی سرگرمیوں کی جانچ پڑتال اور مشہور غیر ملکی ایجنٹوں کی آوازیں اور مکالے وغیرہ ٹیپ کرنا ولیم پیلٹن کی ہی ذمہ داری تھی۔ ملک سے باہر بھیجے جانے والے خفیہ پیغامات کی جانچ پڑتال بھی اسکی ذمہ داری تھی لیکن اس سارے کام کے عوض اس کی تنخواہ برائے نام ہی تھی۔ اسی چیز کا امریکہ کے دشمنوں نے فائدہ اٹھایا اور ولیم امریکہ کے انتہائی اہم رازوں کی منصوبہ بندیوں اور دستاویزات کی تقسیم اور ترسیل بہت آگے نکل گیا۔ اس سلسلے میں اسکے رابطے سوویت یونین سے بھی تھے۔ اس مکروہ دھندے میں اس کے ساتھ ایک اور چینی نژاد امریکی باشندہ لیری وطائی شین بھی شامل تھا ۔ اسکی ذمہ داری چینی جاسوسوں کی مدد کرنا تھا۔ لیری وطائی شین نے ایک قدم اور آگے بڑھایا اور راتوں رات ڈالرز کے ڈھیر لگا لینے کیلئے چینی ایجنٹوں کے ہاتھ معلوماتی اور اطلاعاتی راز بیچنا شروع کر دیئے۔ جس وقت پولارڈ کے کرتوت سامنے آئے ، اس کی عمر صرف ت 23 سال تھی

اور وہ پچھلے ایک سال سے اسرائیل کیلئے بھی بحیثیت ڈبل ایجنٹ استعمال ہورہا تھا۔


پیلٹن کی عمر چھیالیس سال تھی اور وہ پچھلے سترہ سال سے سویت یونین کا نمک خوار چلا آرہا تھا، جبکہ وطائی پینسٹھ سال کا ہو چکا تھا اور سب سے سینیٹر جاسوس ہونے اور کہلانے کے اعزاز کا حقدار تھا، کیونکہ وہ تیس سال سے چین کو امریکہ کے دفاعی رازوں سے نوزا تا چلا آرہا تھا۔ پولارڈ کی پچیس سالہ بیوی اپنی وینڈرسن بھی اپنے شوہر کے اعمال میں پوری طرح ملوث تھی اور چٹھی رساں بن کر غیر ملکی ایجنٹوں کو خفیہ معلومات پہنچایا کرتی تھی۔

پولارڈ نے شین فورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی تھی ۔ 1976 میں اس کا اسرائیل کیساتھ رابطہ ہوا اور 1984 ء تک یعنی آٹھ سال کی آزمائشی جانچ پرکھ کے بعد اسکی دال گلنی شروع ہو گئی۔ کہا جاتا ہے کہ پولارڈ کے اس جاسوسی دھندے کا آغاز 45,000 ڈالرز کی اجرت کیساتھ ہوا تھا۔ اس کے مقدر میں لکھی گئی جاسوسانہ شہرت بھی اسے 1984ء میں ہی مل گئی جب وہ انتہائی اہم دفاعی منصوبہ بندیوں کی دستاویزات پر مشتمل سوٹ کیس لئے اسرائیل میں قدم رکھتے ہی رنگے ہاتھوں دھر لیا گیا تھا۔ اس موقع پر ایک امریکن ایجنٹ نے طنز یہ کہا تھا کہ ان کی اپنی بلی کسی دوسرے گھر میں گھستی ہوئی گھیری گئی۔ اس کی بیوی بھی اگلے دن ہی گرفتار ہو کر اپنے مجازی خدا کے پاس مزید عبادت اور ریاضت کیلئے جیل بھیج دی گئی۔

امریکہ میں متعین اسرائیلی سفیر میر روسین بھی پولارڈ کا دوست تھا اور اس نے پورے وثوق سے کہہ دیا کہ جس قسم کی بھی دستاویزات اسرائیل گئی ہیں وہ امریکہ کو واپس لوٹا دی جائیں گی اور پھر اس وقوعے کی آڑ میں کسی بھی اسرائیلی عہدیدار کو امریکہ بدر نہیں کیا جائے گا۔ لیکن اسکی یہ ڈینگی خواہش پوری نہ ہوسکی کیونکہ امریکی حکومت نے عین را بد اور جوزف یا گور کو امریکہ بدر کر دیا۔ وہ دونوں اسرائیلی سفارت خانے میں سائنس کے مشیر تھے۔ اس طرح وہ امریکی دستاویزات بھی وہیں کی وہیں رہیں جہاں جا چکی تھیں۔ اس پورے معاملے کی اسرائیلی حکومت نے تحقیقات کیں تو اسرائیلی کا بینہ میں یہ انکشافات ہوئے کہ پولارڈ نے امریکہ کی طرف سے عرب ممالک کو فوجی ساز وسامان پہنچائے جانے کی دستاویزات اسرائیل کے حوالے کی تھیں اور اس میں تو شک وھے کی کوئی گنجائش ہی باقی نہ تھی کہ



عرب ممالک اپنے وجود کیلئے اسرائیل کی موجودگی کو ایک ناسور سمجھتے تھے۔ ان دستاویزات میں براہ راست اسرائیل جاسوسی اقدامات کے خلاف معلومات بھی تھیں۔ ایف بی آئی کی اندرونی تحقیق کے مطابق، پولارڈ، پیلٹن اور شین نے فرضی ناموں سے بھی بڑی بڑی سرمایہ کاری کی ہوئی تھی۔ اس سے یہ خیال لگایا گیا کہ امریکہ کیساتھ ایسے جاسوسی چکر چلانے والے کرداروں کی پشت پناہ کوئی غیر ملکی ایجنسی ہی ہو سکتی ہے اور اس سلسے میں زیادہ سے زیادہ معلومات فراہم کر نیوالا ایک کردار یور چینیکو تھا۔ اس کی کارکردگی کے دو بھر پور پہلو تھے ، یعنی اول یہ کہ وہ امریکہ اور اس کے دوست ممالک چین اور اسرائیل کے درمیان نفاق ڈالنے میں ماہر تھا اور دوسرا یہ کہ لگائی بجھائی کے اس

وطیرے میں اس کے پاس معلومات کا بھی ایک خزانہ تھا۔ اس سلسلے میں پیلٹن کا کردار بھی کافی تجسس اور توجہ طلب تھا۔ اس نے روس کو وہ کوڈ نمبر ز دیئے تھے جو امریکی خلائی سٹیلائیٹس سے رابطے میں استعمال ہوتے تھے اور اس نے روس کو اس کے اُن مقامات کی نشاندہی بھی کرادی تھی جو امریکہ کی پیش قدمی میں پیش پیش تھے۔ یہ بھی پیلٹن کی قابلیت کی دلیل تھی کہ اس نے روس کو یہ بھی باور کرادیا تھا کہ جن کوڈ نمبرز میں وہ پیغام رسانی کرتے ہیں اس سے امریکی بھی آگاہ ہیں اور اسی کی اس اطلاع کاری سے روسی اپنے لائحہ عمل میں محتاط ہو گئے تھے۔ پیلٹن کے روس سے بڑے ہی باعزت تعلقات تھے ۔ وہ 1980ء اور 1983ء کے دوران دورے پر ہوتا تو وہی آنا میں اس کا قیام روسی سفیر کے پاس ہوتا۔ وہ کسی ہوٹل میں قدم تک نہ رکھتا۔ کیسی حیرت اور لطف کی بات ہے کہ پیلٹن کا ہی کوئی ہم منصب اور کرتوت کا رروسی کردار امریکہ کیلئے یہی کام کرتا تھا جو پیلٹن روس کیلئے کرتا تھا، لہذا امریکہ بھی باخبر رہا کہ، پیلٹن کہاں کہاں جاتا ، رہتا اور کرتا ہے؟ اس دنیا ئے جاسوس سازی کے بھی عجب ڈھنگ ہیں۔ کسی بھی قسم کے اصول و اخلاقیات اور عہد و پیمان کو اہمیت نہیں دی جاتی ہے۔



یور چینیکو سکینڈل

سرجیو وچ یور چینیکو کی کہانی الف لیلوی قسم کی لگتی ہے۔ یور چینیکو روی انٹیلی جنس ) ایجنسی کے جی بی میں ڈپٹی ڈائریکٹر اور شمالی امریکہ کی جاسوسی سرگرمیوں کا انچارج تھا۔ سی آئی اے کے مطابق وہ سی آئی اے کے طریقہ کار کی تجزیہ کاری کیلئے سازش کے تحت امریکہ آیا تھا۔ یور چینیکو ایسا جاسوس تھا جس نے پہلے کے جی بی کی کارروائیوں کا انکشاف کر کے امریکہ میں پناہ حاصل کر لی اور امریکہ کے لئے کام شروع کر دیا۔ اور پھر امریکہ کی بھی جڑیں کاٹنے لگا۔

یور چینی کو جیسے ماہر جاسوس کے اس طرح اپنے پاؤں سے اکھر جانے پر امریکوں کو ایک حیرت انگیز خوشی ہوئی کیونکہ جاسوسی کی دو سو سالہ تاریخ میں پہلی بار کسی اتنے اونچے پائے کا جامل جاسوس ان کے ملک میں پناہ گزیں ہوا تھا۔ اس کے متنازعہ وجود اور انحرافی کردار نے روسیوں کی جاسوسی سرگرمیوں میں امریکیوں کیلئے معلومات کے نئے دریچے کھول دیئے بلکہ دیگر دوست ممالک جو روسی سرگرمیوں کے محور تھے، کیلئے بھی وہ کردار سودمند ثابت ہوا۔ اس دن اور چینیکو کی زبانی جو انکشافات ہوئے اس سے یہ معلوم ہوا کہ دنیا بھر میں سی آئی اے کی پیش قدمیوں کو تہس

نہیں کرنے کیلئے روس نے بہت بڑی منصوبہ بندی کر رکھی ہے ، جس سے سی آئی اے کی ہیت

اور حیثیت دو ٹکے کی ہو کر رہ جاتی۔



سیاسی وجوہات کی بنا پر وہ امریکہ میں ہی کسی دار الامان کی اقامت کا خواہشمند تھا اور اس کی یہ خواہش پوری بھی کر دی گئی تھی۔ دوران تفتیش اسے کئی زاویوں سے پوچھا پر کھا گیا اور اس نے

زیادہ ترریح ہی اگلا۔ ورجینیا میں 2 امیر تک قیام تک اسے باہر کے مقامات پر بھی سی آئی اے اہلکار لے جایا کرتے تھے اور ایسے ہی دورے کے دوران جارج ٹاؤن کے ایک ریستوران سے وہ غائب ہو گیا۔ سی آئی اے عہدیداران کا کہنا تھا کہ اس سے ناروا سلوک رکھا جاتا تھا اور پھر اس کے یوں دائیں بائیں ہو جانے کو ضرورت سے زیادہ ہی اچھالا بھی گیا۔ یہ بھی قدرتی امر ہے کہ اس کے بچے روس میں تھے جن کی یاد نے بھی یقینا اسے ستایا ہوگا اور پھر اوپر سے سی آئی اے کا ناروا سلوک۔ شروع شروع میں تو اس کی زبان سے اپنے بچوں اور اپنے ملک کے متعلق کوئی اچھے کلمات سنائی نہ دیتے تھے۔ امریکہ میں قیام کی وجہ کینیڈا میں مقیم اس کی محبوبہ تھی لیکن جب اسے معلوم ہوا کہ اس نے اوپر کی منزل سے نیچے کود کر خود کشی کر لی ہے تو پھر امریکہ تو کیا یور چینیکو کیلئے ساری دنیا میں ہی رہنا

محال ہو گیا۔ پور چینیکو نے دوبارہ راہ فرار اختیار کی اور روس پہنچ گیا۔ روس پہنچ کر اس نے کئی کہانیاں سنائیں جن میں سے ایک یہ بھی تھی کہ اسے دوائیوں کے زیر اثر نیم بیہوش حالت میں ریاست در جینا کے شہر فریڈرکس برگ کے قریب تین ماہ تک قید تنہائی میں رکھا گیا تھا اور پھر مجھے سب کچھ اگل دینے پر ایک ملین ڈالرز کالالچ بھی دیا گیا۔ پھر نیم بیہوش حالت میں ہی مجھے ڈائر یکٹرسی آئی کیساتھ رات کے کھانے پر بھی لایا گیا۔ چینیکو کے مطابق اسے اس مقام اور حالت تک پہنچانے والے اُس کے اپنے ہی تھے۔ امن عالم ، جوہری ہتھیار اور دوسرے بین الاقوامی موضوعات جب جینوا میں روس اور امریکی سربراہان کے درمیان زیر بحث آتے تو پھر ایسے کردار اور ان کے کارنامے بھی ضرور ابھر کر سامنے آتے لیکن یہ عیاں نہ ہو سکا کہ ان بحثوں کی برکت سے یا پھر کسی دوسرے طریقے سے تمین روسی پناہ گزین ایک ایک کر کے روس چلے گئے تھے۔ جہاں تک یور چینیکو کے فرار کا معاملہ


ہے تو اس کیس میں یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ سی آئی اے کی سختیوں سے تنگ آکر راہ فرار اختیار کر
گیا تھا۔
بعض تفتیشی ،ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ ہی آئی اے کی جتنی بھی سراغرسانی اور جاسوسی اور چینیکو کو در کارتھی وہ تین ماہ میں مکمل ہو گئی اور پھر اس نے واپسی اختیار کر لی۔ اس سلسلے میں اگر یور چینیکو کی بیان کردہ الف لیلیٰ پر یقین کیا جائے تو کوئی خاطر خواہ بات بنتی نظر نہیں آتی ، بلکہ وسیع النظری سے دیکھا جائے کہ ایسا جاسوس کار کردار تین ماہ کی مدت میں کیا کیا کچھ پیٹ بھر کر واپس روس جا سکتا ہے تو بات
کوئی معنی مفہوم بھی دے جائے گی۔ سی آئی اے نے بھی بعد ازاں اس امر کی تصدیق کر دی کہ فریڈرکس برگ میں یور چینیکو کو قید تنہائی اور نشی کی حالت میں رکھا گیا تھا اور اسے کئی ملین ڈالرز کا لالچ بھی دیا گیا تھا۔ پھر اسے سی آئی اے کے ڈائیریکٹر ولیم کیسی کے سامنے حاضر کیا گیا مگر اس سے تفتیش کرنے والوں نے کہا
کہ پور چینیکو نے ایک بھی کار آمد حقائق سے آگا ہی نہیں دی تھی۔ اس دوران یور چینیکو کے متعلق یہ حقائق بھی سامنے لائے گئے کہ اسے کینیڈا میں تعینات ایک روسی سفارتکار کی بیوی سے والہانہ مشق ہو گیا تھا مگر یور چینی کو اس سے کسی قسم کا تعاون اور رفاقت کاری سے انکار کرتا رہا۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ایک اور بھی انکشاف
کیا کہ یکم اگست کو یہی یور چینیکو روم بھی امریکی سفارت خانے کی دوا بز پر بھی نظر آیا تھا۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں تھا کہ کسی روی تخریب کار نے واویلا کیا ہو کہ اسے منشیات میں مطلوب کر کے اغوا کر لیا گیا۔ کچھ عرصہ قبل اولیگ بیٹو نامی ایک روسی جرنلسٹ نے بھی ایسا ہی واویلا کیا تھا کہ اسے برطانوی ایجنٹوں نے منشیات میں مطلوب قرار دے کر کے اغوا کر لیا اور آخر کا راسے بھی روس واپسی کی راہ پر روانہ کر دیا گیا تھا۔ بعض ذمہ دار عہدیداروں کے مطابق یور چینیکو کی امریکہ
آمد اور پھر واپسی تک کا سارا ڈرامہ کے جی بی ہی کے ہی ایک منصوبے کا حصہ تھا۔ کچھ عرصہ قبل کے جی بی کے سر براہ گورڈی اولیگ بیو سکائی نے لندن میں ایسی ہی کاروائیوں کا سہرا اپنے سر لینے کی کوشش کی تھی تو اسے فی الفور ماسکو میں تفتیش کے لئے طلب کر لیا

گیا تھا، مگر مئی جون 1985ء میں برطانوی ایجنٹس کی بہادری ہی دیکھئے، جنہوں نے اولیگ گورڈی کو کے جی بی کی حراست سے واپس چھڑا لیا، جس سے روسیوں کو یقینا ایک دھچکا لگا تھا اور انہوں نے اس قسم کا کوئی ڈرامائی ڈھونگ رچا کرسی آئی اے کو نیچا دکھانے کیلیور چینیکوں کے کردار کو سٹیج پر چڑھا دیا۔

پور چینی کو والے ڈرامائی ڈھونگ کا جس مرضی زادیئے اور پہلو سے موازنہ اور معانقہ کرلیں۔ جاسوسی کی تاریخ میں اس قسم کا ڈھونگ ڈھونڈھے سے بھی نہیں ملے گا۔ بس ذرا یہ مشکل پیش آرہی تھی کہ آیا یور چینی کو اپنی مرضی سے یہ ساری اداکاری کرتا چلا آرہا تھا یا کہ وہ واقعی اغواشدہ اور مظلوم تھا۔ کے جی بی کا یہ منصوبہ سامنے نہیں آسکا کہ اس ساری ڈرامہ سازی کے پیچھے اس کا

اصل مقصد کیا تھا۔










Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.