World Big Spy Scandal |
دنیا کے بڑے جاسوس سکینڈلز
عرض ناشر
قارئین کو مطالعہ کے لئے ایسے مستند اور معیاری مواد کی فراہمی جو آخری صفحات تک ان کی دل چسپی کا ضامن ہو، ہمارا مطمع نظر ہے۔ کوئی بھی کتاب شائع کرتے وقت ہمارا مقصد اعلیٰ یہ ہوتا ہے کہ اپنے قارئین کے اعلیٰ ذوق کی ترویج کیلئے پر مغز مطالعاتی مواد فراہم کیا جائے تا کہ ان کے ذوق مطالعہ کی تسکین ہوتی رہے۔ اب تک ہم نے نئے اور منفرد موضوعات پر جو کتب شائع کی
ہیں۔ وہ کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں۔
یہ کتاب ایک مشہور زمانہ کتاب World Big Spy Scandal کا اردو ترجمہ ہے۔ اس کتاب میں بھی دنیا کے کونے کونے تک پہنچنے والی مشہور زمانہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کی کارروائیوں کے بارے میں اہم مواد شامل ہے جو بڑی دلچسپی کا حامل ہے۔ اس کتاب میں ایٹمی رازوں کی عالمی چوروں کی وارداتیں اور جاسوسی کے ایسے سیکنڈلز شامل ہیں جنہیں پڑھ کر قارئین دنگ
رہ جائیں گے۔
کرسٹینا کیلر وہ جاسوسہ تھی جس کی وجہ سے میکمیلان جیسے پرائم منسٹر کی چھٹی ہوگئی ۔ گلیوم اور ایلی کو ہن ایسے جاسوس کر دار تھے جو وتی برانڈ تھ اور حافظ الامین جیسے حاکموں کی وجہ سے انہی کی حکومتوں کے زوال کا باعث بن گئے ۔ لار کنز ، کومر، نائین اور رام سوا روپ جینے کرداروں کی یہاں بھی کمی نہیں ہے جنہوں نے ملک وملت کی سودے بازی کی بہت کوششیں کیں لیکن بالآخر پکڑے گئے اور عبرت کی داستانیں بن کر کتابوں کی زینت بن گئے۔
آپ کی آراء ہمارے لئے نہ صرف باعث حوصلہ افزائی بلکہ معاونت بھی فراہم کرے گی۔ اس کتاب میں قارئین کی دلچسپی کے لیے کچھ اضافہ بھی کیا گیا ہے۔
دنیا کے بڑے جاسوس سکینڈلز
اسلام آباد کی بھارتی ایمبیسی سے گرفتار ہونے والی خاتون ڈپلومیٹ مادھوری گپتا پر الزام یہ تھا کہ وہ اس نے کچھ حساس دستاویزات پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کو دیں۔ اس پورے واقعے کی تفصیل پر منبی ایک باب کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔ ایک اور باب پاکستان میں تخریب کاری پھیلانے والے بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ کے پاکستان سیکشن کے ہیڈ کرنل کلبھوشن یادو کا ہے۔ کرنل کلبھوشن یادو کی گرفتاری انٹیلی جنس کی دنیا میں ایک بڑا بریک تھر تھی۔ یہ خاصا دلچسپ باب ہے اور پڑھنے والوں کو پسند آئے گا۔ یہ دونوں باب معروف تحقیقی صحافی مقبول ارشد نے لکھے تھے جو ان کی اجازت اور شکریے کے ساتھ کتاب میں شامل کیے جارہے ہیں۔ اُمید ہے کہ آپ کو یہ کتاب پسند آئے گی۔
ایڈیٹوریل ٹیم
دنیا کے بڑے جاسوس سکینڈلز
اسلام آباد کی بھارتی ایمبیسی سے گرفتار ہونے والی خاتون ڈپلومیٹ مادھوری گپتا پر الزام یہ تھا کہ وہ اس نے کچھ حساس دستاویزات پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کو دیں۔ اس پورے واقعے کی تفصیل پر منبی ایک باب کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔ ایک اور باب پاکستان میں تخریب کاری پھیلانے والے بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ کے پاکستان سیکشن کے ہیڈ کرنل کلبھوشن یادو کا ہے۔ کرنل کلبھوشن یادو کی گرفتاری انٹیلی جنس کی دنیا میں ایک بڑا بریک تھر تھی۔ یہ خاصا دلچسپ باب ہے اور پڑھنے والوں کو پسند آئے گا۔ یہ دونوں باب معروف تحقیقی صحافی مقبول ارشد نے لکھے تھے جو ان کی اجازت اور شکریے کے ساتھ کتاب میں شامل کیے جارہے ہیں۔ اُمید ہے کہ آپ کو یہ کتاب پسند آئے گی۔
ایڈیٹوریل ٹیم
.
دنیا کے بڑے جاسوس سکینڈلز
1
پولارڈ سکینڈل
امریکن خفیہ ایجنسیاں یہ جان کر حیران و ششدر رہ گئیں کہ چند مہربان کردار ان کی ناک کے عین نیچے دفاعی رازوں کی چوری اور فروخت میں کہیں سے کہیں پہنچ چکے ہیں۔ امریکہ کا اتحادی نمبر ایک اسرائیل تو جاسوسی میں اس حد تک آگے نکل گیا ہے جہاں تک امریکہ کا کوئی بدترین دشمن بھی نہیں جاسکا۔ اس قسم کی جاسوسی سرگرمیوں
کی وبا 1985ء میں خوب پھلی پھیلی تھی۔ یہ سب کیسے ہوا؟ آئیے پڑھتے ہیں۔
امریکی محکمہ انصاف کے عہدیدارواں نے نومبر 1985ء کے آخری ہفتے میں ان جاسوسی سرگرمیوں اور الزامات کی بنا پر تین فائلیں عدالت میں پیش کیں، جس سے جاسوسی و ہائی قسم کا موضوع اور مواد اخبارات کے ہاتھ لگ گیا اور انہوں نے پورے امریکہ میں ایک طیش اور خبط آمیز ماحول پیدا کر دیا ۔ عوام الناس کا یہ ذہن بن رہا تھا کہ امریکی مسلح افواج کے ساتھ اسلحہ، دفاعی دستاویزات اور بہت سے دوسرے قیمتی مواد کی چوری کی سازش میں روہی جہنی اور اسرائیلی خفیہ
ایجنٹس سرگرم عمل رہے ہیں ۔ اس راہ عمل پر سب کو سر گرم کر نیوالا کردار یو ایس بحریہ کا کانا تن ہے پولارڈ تھا۔ یہ دلچسپ بات ہے کہ یہ وہ وقت تھا جب صدر ریگن نے واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ ہم نے اپنے ملک کو ہمہ قسم کی جاسوسی سرگرمیوں سے صاف کرنے کا عزم کر لیا ہے لہذا جو کوئی بھی ہمارے ہتھے چڑھ گیا،
سخت سزا سے نہیں بچ سکے گا۔
دنیا کے بڑے جاسوس سکینڈلز ذرا تصور کریں کہ امریکہ کو اُن جاسوسی سرگرمیوں کے دائرہ کار کو کنٹرول کرنے کیلئے ساٹھ
ہزار کے قریب دفاعی ملازمین کو دنیا بھر میں تعینات کرنا پڑا۔
1983ء میں ان جاسوسی سرگرمیوں میں خاطر خواہ اضافہ ہو گیا۔ امریکی جاسوسی کا سد باب ایجنسیوں کے لئے ایک مستقل دردسر بن گیا۔ 1983ء میں ان جاسوسی مقدمات کی تعداد پانچ تھی ، 1984ء میں چودہ اور 1985ء میں سترہ تک پہنچ گئی تھی۔
یہ حالات دیکھ کر امریکی انتظامیہ مل گئی اور ان حالات کی ذمہ داری وفاقی سطح پر تعینات ڈپٹی چیف تفتیشی بیورو پولار پر ڈالی گئی ۔ اس ادارے کے سربراہ فلپ پار کرنے بعد ازاں ان جاسوس سرگرمیوں کے بارے میں بڑے وثوق سے کہا کہ ان کے محکمے میں کون کیا تھا اور کن سرگرمیوں میں ملوث تھا، وہ سب جان گیا ہے اور آئندہ کیلئے ایسی سرگرمیوں پر مشتمل مقدمات
کا وجود تک نہیں ملے گا۔
ان جاسوس سرگرمیوں میں ملوث دوسرا کردار رونالڈ ولیم پیلٹن تھا، وہ تھا تو ماہر مواصلات مگر
جاسوسی کاموں کا گرو مانا جاتا تھا۔ فضائی مواصلاتی جاسوسی سرگرمیوں کی جانچ پڑتال اور مشہور غیر ملکی ایجنٹوں کی آوازیں اور مکالے وغیرہ ٹیپ کرنا ولیم پیلٹن کی ہی ذمہ داری تھی۔ ملک سے باہر بھیجے جانے والے خفیہ پیغامات کی جانچ پڑتال بھی اسکی ذمہ داری تھی لیکن اس سارے کام کے عوض اس کی تنخواہ برائے نام ہی تھی۔ اسی چیز کا امریکہ کے دشمنوں نے فائدہ اٹھایا اور ولیم امریکہ کے انتہائی اہم رازوں کی منصوبہ بندیوں اور دستاویزات کی تقسیم اور ترسیل بہت آگے نکل گیا۔ اس سلسلے میں اسکے رابطے سوویت یونین سے بھی تھے۔ اس مکروہ دھندے میں اس کے ساتھ ایک اور چینی نژاد امریکی باشندہ لیری وطائی شین بھی شامل تھا ۔ اسکی ذمہ داری چینی جاسوسوں کی مدد کرنا تھا۔ لیری وطائی شین نے ایک قدم اور آگے بڑھایا اور راتوں رات ڈالرز کے ڈھیر لگا لینے کیلئے چینی ایجنٹوں کے ہاتھ معلوماتی اور اطلاعاتی راز بیچنا شروع کر دیئے۔ جس وقت پولارڈ کے کرتوت سامنے آئے ، اس کی عمر صرف ت 23 سال تھی
اور وہ پچھلے ایک سال سے اسرائیل کیلئے بھی بحیثیت ڈبل ایجنٹ استعمال ہورہا تھا۔
پیلٹن کی عمر چھیالیس سال تھی اور وہ پچھلے سترہ سال سے سویت یونین کا نمک خوار چلا آرہا تھا، جبکہ وطائی پینسٹھ سال کا ہو چکا تھا اور سب سے سینیٹر جاسوس ہونے اور کہلانے کے اعزاز کا حقدار تھا، کیونکہ وہ تیس سال سے چین کو امریکہ کے دفاعی رازوں سے نوزا تا چلا آرہا تھا۔ پولارڈ کی پچیس سالہ بیوی اپنی وینڈرسن بھی اپنے شوہر کے اعمال میں پوری طرح ملوث تھی اور چٹھی رساں بن کر غیر ملکی ایجنٹوں کو خفیہ معلومات پہنچایا کرتی تھی۔
پولارڈ نے شین فورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی تھی ۔ 1976 میں اس کا اسرائیل کیساتھ رابطہ ہوا اور 1984 ء تک یعنی آٹھ سال کی آزمائشی جانچ پرکھ کے بعد اسکی دال گلنی شروع ہو گئی۔ کہا جاتا ہے کہ پولارڈ کے اس جاسوسی دھندے کا آغاز 45,000 ڈالرز کی اجرت کیساتھ ہوا تھا۔ اس کے مقدر میں لکھی گئی جاسوسانہ شہرت بھی اسے 1984ء میں ہی مل گئی جب وہ انتہائی اہم دفاعی منصوبہ بندیوں کی دستاویزات پر مشتمل سوٹ کیس لئے اسرائیل میں قدم رکھتے ہی رنگے ہاتھوں دھر لیا گیا تھا۔ اس موقع پر ایک امریکن ایجنٹ نے طنز یہ کہا تھا کہ ان کی اپنی بلی کسی دوسرے گھر میں گھستی ہوئی گھیری گئی۔ اس کی بیوی بھی اگلے دن ہی گرفتار ہو کر اپنے مجازی خدا کے پاس مزید عبادت اور ریاضت کیلئے جیل بھیج دی گئی۔
امریکہ میں متعین اسرائیلی سفیر میر روسین بھی پولارڈ کا دوست تھا اور اس نے پورے وثوق سے کہہ دیا کہ جس قسم کی بھی دستاویزات اسرائیل گئی ہیں وہ امریکہ کو واپس لوٹا دی جائیں گی اور پھر اس وقوعے کی آڑ میں کسی بھی اسرائیلی عہدیدار کو امریکہ بدر نہیں کیا جائے گا۔ لیکن اسکی یہ ڈینگی خواہش پوری نہ ہوسکی کیونکہ امریکی حکومت نے عین را بد اور جوزف یا گور کو امریکہ بدر کر دیا۔ وہ دونوں اسرائیلی سفارت خانے میں سائنس کے مشیر تھے۔ اس طرح وہ امریکی دستاویزات بھی وہیں کی وہیں رہیں جہاں جا چکی تھیں۔ اس پورے معاملے کی اسرائیلی حکومت نے تحقیقات کیں تو اسرائیلی کا بینہ میں یہ انکشافات ہوئے کہ پولارڈ نے امریکہ کی طرف سے عرب ممالک کو فوجی ساز وسامان پہنچائے جانے کی دستاویزات اسرائیل کے حوالے کی تھیں اور اس میں تو شک وھے کی کوئی گنجائش ہی باقی نہ تھی کہ
عرب ممالک اپنے وجود کیلئے اسرائیل کی موجودگی کو ایک ناسور سمجھتے تھے۔ ان دستاویزات میں براہ راست اسرائیل جاسوسی اقدامات کے خلاف معلومات بھی تھیں۔ ایف بی آئی کی اندرونی تحقیق کے مطابق، پولارڈ، پیلٹن اور شین نے فرضی ناموں سے بھی بڑی بڑی سرمایہ کاری کی ہوئی تھی۔ اس سے یہ خیال لگایا گیا کہ امریکہ کیساتھ ایسے جاسوسی چکر چلانے والے کرداروں کی پشت پناہ کوئی غیر ملکی ایجنسی ہی ہو سکتی ہے اور اس سلسے میں زیادہ سے زیادہ معلومات فراہم کر نیوالا ایک کردار یور چینیکو تھا۔ اس کی کارکردگی کے دو بھر پور پہلو تھے ، یعنی اول یہ کہ وہ امریکہ اور اس کے دوست ممالک چین اور اسرائیل کے درمیان نفاق ڈالنے میں ماہر تھا اور دوسرا یہ کہ لگائی بجھائی کے اس
وطیرے میں اس کے پاس معلومات کا بھی ایک خزانہ تھا۔ اس سلسلے میں پیلٹن کا کردار بھی کافی تجسس اور توجہ طلب تھا۔ اس نے روس کو وہ کوڈ نمبر ز دیئے تھے جو امریکی خلائی سٹیلائیٹس سے رابطے میں استعمال ہوتے تھے اور اس نے روس کو اس کے اُن مقامات کی نشاندہی بھی کرادی تھی جو امریکہ کی پیش قدمی میں پیش پیش تھے۔ یہ بھی پیلٹن کی قابلیت کی دلیل تھی کہ اس نے روس کو یہ بھی باور کرادیا تھا کہ جن کوڈ نمبرز میں وہ پیغام رسانی کرتے ہیں اس سے امریکی بھی آگاہ ہیں اور اسی کی اس اطلاع کاری سے روسی اپنے لائحہ عمل میں محتاط ہو گئے تھے۔ پیلٹن کے روس سے بڑے ہی باعزت تعلقات تھے ۔ وہ 1980ء اور 1983ء کے دوران دورے پر ہوتا تو وہی آنا میں اس کا قیام روسی سفیر کے پاس ہوتا۔ وہ کسی ہوٹل میں قدم تک نہ رکھتا۔ کیسی حیرت اور لطف کی بات ہے کہ پیلٹن کا ہی کوئی ہم منصب اور کرتوت کا رروسی کردار امریکہ کیلئے یہی کام کرتا تھا جو پیلٹن روس کیلئے کرتا تھا، لہذا امریکہ بھی باخبر رہا کہ، پیلٹن کہاں کہاں جاتا ، رہتا اور کرتا ہے؟ اس دنیا ئے جاسوس سازی کے بھی عجب ڈھنگ ہیں۔ کسی بھی قسم کے اصول و اخلاقیات اور عہد و پیمان کو اہمیت نہیں دی جاتی ہے۔
یور چینیکو سکینڈل
سرجیو وچ یور چینیکو کی کہانی الف لیلوی قسم کی لگتی ہے۔ یور چینیکو روی انٹیلی جنس ) ایجنسی کے جی بی میں ڈپٹی ڈائریکٹر اور شمالی امریکہ کی جاسوسی سرگرمیوں کا انچارج تھا۔ سی آئی اے کے مطابق وہ سی آئی اے کے طریقہ کار کی تجزیہ کاری کیلئے سازش کے تحت امریکہ آیا تھا۔ یور چینیکو ایسا جاسوس تھا جس نے پہلے کے جی بی کی کارروائیوں کا انکشاف کر کے امریکہ میں پناہ حاصل کر لی اور امریکہ کے لئے کام شروع کر دیا۔ اور پھر امریکہ کی بھی جڑیں کاٹنے لگا۔
یور چینی کو جیسے ماہر جاسوس کے اس طرح اپنے پاؤں سے اکھر جانے پر امریکوں کو ایک حیرت انگیز خوشی ہوئی کیونکہ جاسوسی کی دو سو سالہ تاریخ میں پہلی بار کسی اتنے اونچے پائے کا جامل جاسوس ان کے ملک میں پناہ گزیں ہوا تھا۔ اس کے متنازعہ وجود اور انحرافی کردار نے روسیوں کی جاسوسی سرگرمیوں میں امریکیوں کیلئے معلومات کے نئے دریچے کھول دیئے بلکہ دیگر دوست ممالک جو روسی سرگرمیوں کے محور تھے، کیلئے بھی وہ کردار سودمند ثابت ہوا۔ اس دن اور چینیکو کی زبانی جو انکشافات ہوئے اس سے یہ معلوم ہوا کہ دنیا بھر میں سی آئی اے کی پیش قدمیوں کو تہس
نہیں کرنے کیلئے روس نے بہت بڑی منصوبہ بندی کر رکھی ہے ، جس سے سی آئی اے کی ہیت
اور حیثیت دو ٹکے کی ہو کر رہ جاتی۔