'' آدھا حِصّہ ''
یہ اس دور کا واقعہ ہے جب حضرت لعل شہباز قلندر رحمتہ اللّٰه علیہ بخارا میں مقیم تھے۔اس وقت آپ رحمتہ اللّٰه علیہ نوجوان تھے مگر شہرت عام ہو چُکی تھی۔بخارا کا بادشاہ بے اولاد تھا۔اس نے نامور طبیبوں کے نسخے آزمائے علماء کے کہنے پر ضرورت مندوں میں دولت تقسیم کی لیکن نہ کوئی دوا کام آئی اور نہ دُعا۔آخر ایک وزیر نے بادشاہ کو حضرت لعل شہباز قلندر رحمتہ اللّٰه علیہ کی خانقاہ کا پتہ بتاتے ہوئے کہا:
'' اگر آپ اس نوجوان درویش سے رجوع کریں تو عجب نہیں کہ اللّٰه تعالٰی آپ کی مُشکل آسان فرما دے۔ ''
بادشاہِ بخارا کو وزیر کی بات پر یقین نہیں آیا لیکن وہ تاج و تخت کے وارث کی تلاش میں تھک چُکا تھا اس لیے حضرت قلندر رحمتہ اللّٰه علیہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگا:
'' شیخ! دینے والے نے مجھے سب کچھ دے رکھا ہے مگر میں اولاد کی نعمت سے محروم ہوں۔میرے لیے دُعا فرئیے کہ خالقِ کائنات مجھے بے نِشان ہونے سے بچا لے۔ ''
شاہِ بخارا کی اِلتجا سُن کر حضرت لعل شہباز قلندر رحمتہ اللّٰه علیہ نے فرمایا:
کوئی کتنا بھی کثیرالاولاد ہو مگر بے نِشانی ہر شے کا مقدر ہے۔ ''
شاہِ بخارا نے عرض کِیا:
'' میں اس بے نِشانی کی بات نہیں کر رہا ہوں۔مجھے اپنے تاج و تخت کا وارث چاہیے۔ ''
حضرت لعل شہباز قلندر رحمتہ اللّٰه علیہ نے شاہِ بخارا کو ٹالنے کی غرض سے فرمایا:
'' سب کچھ اسی کے قبضہ قدرت میں ہح جس نے تمہیں تاج و تخت بخشے ہیں وہی اولاد بھی عطا کرے گا۔اسی کے آگے دامنِ مُراد پھیلائے رکھو۔ ''
شاہِ بخارا نے غمزدہ لہجے میں کہا:
'' شیخ! میرے گناہ مجھے مایوسی کی طرف کھینچے چلے جا رہے ہیں۔اگر میری اِلتجاؤں میں تاثیر ہوتی تو میرا نخلِ مُراد اب تک بار آور ہو چُکا ہوتا۔ ''
شاہِ بخارا کی عاجزی و بے چارگی دیکھ کر حضرت لعل شہباز قلندر رحمتہ اللّٰه علیہ نے آنکھیں بند کر لیں۔ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے آپ رحمتہ اللّٰه علیہ مراقبے میں ہیں۔پِھر کچھ دیر بعد حضرت لعل شہباز قلندر رحمتہ اللّٰه علیہ نے سر اُٹھایا اور فرمانروائے بخارا سے مخاطب ہوئے:
'' تمہیں بحُکمِ خدا تخت کا وارث تو مِل جائے گا مگر اس کی ایک شرط ہے۔ ''
شاہِ بخارا کہنے لگا:
'' مجھے ہر شرط منظور ہے۔ ''
شاہِ بخارا حضرت لعل شہباز قلندر رحمتہ اللّٰه علیہ کی زبان مُبارک سے اولاد کی نوید سُن کر بے اِختیار ہو گیا۔حضرت لعل شہباز قلندر رحمتہ اللّٰه علیہ نے فرمایا:
'' تمہارے شہزادے میں آدھا حِصّہ ہمارا ہو گا۔ ''
حضرت لعل شہباز قلندر رحمتہ اللّٰه علیہ نے۔شاہِ بخارا کے سامنے اپنی شرط پیش کر دی۔آدھا حِصّہ؟ حضرت لعل شہباز قلندر رحمتہ اللّٰه علیہ کی شرط سُن کر شاہِ بخارا حیرت زدہ رہ گیا۔شاہِ بخارا کہنے لگا:
'' شیخ! میں آپ کی بات سمجھا نہیں۔ ''
حضرت لعل شہباز قلندر رحمتہ اللّٰه علیہ نے بے نیازانہ کہا:
'' وقت آنے دو سب کچھ سمجھ جاؤ گے۔ ''
شاہِ بخارا سرشاری اور حیرت کے عالم میں قلندر رحمتہ اللّٰه علیہ کی خانقاہ سے اُٹھ کر چلا گیا۔پِھر ایک سال بعد بخارا کا قصرِ شاہی نقاروں اور شادیانوں کے شور سے گونج اُٹھا۔وزرائے مملکت،امیرانِ سلطنت اور دیگر خدمت گار شاہِ بخارا کو خوبصورت فرزند کی وِلادت پر مُبارک باد دے رہے تھے اور فرمانروائے بخارا کی سماعتوں میں حضرت لعل شہباز قلندر رحمتہ اللّٰه علیہ کے یہ الفاظ گونج رہے تھے:
'' بحُکمِ خدا شہزادہ تو آ جائے گا مگر اس میں ہمارا آدھا حِصّہ ہو گا۔ ''
شاہِ بخارا نے حضرت لعل شہباز قلندر رحمتہ اللّٰه علیہ کے اس مبہم اِشارے سے یہ مفہوم اخذ کِیا تھا کہ آپ رحمتہ اللّٰه علیہ سیم و زر کے طلب گار ہوں گے۔نتیجتاً وہ اِنتہائی قیمتی تحائف لے کر حضرت لعل شہباز قلندر رحمتہ اللّٰه علیہ کی بارگاہ میں حاضر ہُوا۔حضرت لعل شہباز قلندر رحمتہ اللّٰه علیہ نے لعل و جواہر اور دینار و درہم سے بھرے طلائی اور نقرئی خوانوں کو دیکھا اور شاہِ بخارا کو مخاطب کر کے فرمایا:
'' یہ کیا ہے؟ ''
شاہِ بخارا نے مسرّت آمیز لہجے میں کہا:
'' آپ کا حِصّہ۔ ''
حضرت لعل شہباز قلندر رحمتہ اللّٰه علیہ نے قیمتی تحائف کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
'' یہ تو میرا حِصّہ نہیں ہے۔ ''
شاہِ بخارا نے حیران ہو کر کہا:
'' آپ ہی نے تو یہ شرط رکھی تھی کہ ولی عہد کی سلطنت میں آدھا حِصّہ آپ کا ہو گا۔ ''
حضرت لعل شہباز قلندر رحمتہ اللّٰه علیہ نے فرمایا:
'' شہزادہ کہاں ہے؟ اسے میرے پاس لے کر آؤ۔میں ولی عہدِ سلطنت سے اپنا حِصّہ وصول کروں گا۔ ''
شاہِ بخارا اب بھی حضرت لعل شہباز قلندر رحمتہ اللّٰه علیہ کی بات سمجھنے سے قاصر تھا۔وہ خانقاہ سے اُٹھا اور شہزادے کو لے کر حضرت لعل شہباز قلندر رحمتہ اللّٰه علیہ کی خدمت میں حاضر ہُوا۔حضرت لعل شہباز قلندر رحمتہ اللّٰه علیہ نے بڑی محبّت سے بخارا کے ولی عہدِ سلطنت کو اپنی آغوش میں لے لیا۔کچھ دیر تک بہت غور سے شہزادے کو دیکھتے رہے پِھر اپنی گدڑی میں چُھپا لیا۔شاہِ بخارا اور اس کے وزراء دم بخود تھے۔حضرت لعل شہباز قلندر رحمتہ اللّٰه علیہ ولی عہدِ سلطنت کو کچھ دیر تک اپنے سینے سے لگائے رہے۔پِھر خوبصورت شہزادے کو شاہِ بخارا کی طرف بڑھاتے ہوئے فرمایا:
'' اب تم جو چاہو کرو ہم نے اپنا حِصّہ وصول کر لیا۔ ''
شاہِ بخارا اور اس کے مصاحب ایک عارف کے رمز و کنایات کو کیا سمجھتے؟ وقت گُزرتا رہا اور شہزادہ جوان ہو گیا۔پِھر شاہِ بخارا کے اِنتقال کے بعد شہزادہ تخت نشین ہُوا۔حضرت لعل شہباز قلندر رحمتہ اللّٰه علیہ نے ولی عہد کا نام '' ادھم '' رکھا تھا اور اب وہی شہزادہ سُلطان ادھم کے نام سے بلخ اور بخارا پر حکومت کر رہا تھا۔
روایت ہے کہ سُلطان ادھم نے کئی سال تک عدل و اِنصاف اور پاک بازی کے ساتھ حکومت کی۔اس کے عہدِ اِقتدار میں بلخ و بخارا کے باشندے پُرسکون اور خوشگوار زندگی بسر کر رہے تھے۔اچانک سُلطان ادھم نے ایک دن اپنے وزراء و امراء کو طلب کر کے کہا:
'' میرا دِل اس فانی سے اُچاٹ ہو چُکا ہے۔اس لیے اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونا چاہتا ہوں۔ ''
سُلطان ادھم کی بات سُن کر اراکینِ سلطنت پریشان ہو گئے۔شہنشاہ! بلخ و بخارا کی عوام کسی دوسرے شخص کو امارات پر راضی نہیں ہوں گے۔وہ آپ کی اِنتظامات اور اندازِ حُکمرانی سے اس قدر مطمئن ہیں کہ کسی دوسرے فرمانروا کا تصوّر بھی نہیں کر سکتے۔سُلطان ادھم نے امرائے سلطنت کی درخواست کے جواب میں کہا:
'' میں نے بہت چاہا کہ میں اس آواز کو نظرانداز کر کے دِن رات تمہاری خدمت میں مشغول رہوں۔مگر اب مجھے اپنے اِرادوں پر کوئی اِختیار نہیں رہا۔وہ آواز پیہم مجھے بُلا رہی ہے۔ ''
وہ کس کی آواز ہے جس نے شہنشاہ کے سکون کو مُنتشر کر دیا ہے؟ وزراء اپنے فرمانروا کی گفتگو کا مفہوم سمجھنے سے قاصر تھے۔سُلطان ادھم نے کہا:
'' تم اس آواز کو نہیں پہچان سکتے،مجھے جانا ہی ہو گا اور اس میں میری سلامتی ہے۔ ''
اس کے بعد سُلطان ادھم اپنے چچا زاد بھائی کے حق میں دستبردار ہو گیا۔پِھر اس نے درویشانہ لِباس پہنا اور حضرت لعل شہباز قلندر رحمتہ اللّٰه کی تلاش میں بلخ و بخارا کی حدود سے نِکل کھڑا ہُوا۔ظاہر پرستوں نے اسے بادشاہ کا دماغی خلل سمجھا،مگر سُلطان ادھم بہت دانا و ذہین تھا۔وہ اپنی دُنیا فروخت کر کے آخرت خریدنا چاہتا تھا۔پِھر یوں ہُوا کہ سُلطان ادھم حضرت لعل شہباز قلندر رحمتہ اللّٰه علیہ کی جستجو میں در در بھٹکتا رہا۔چہرہ موسم کی سختیوں سے جُھلس گیا اور پاؤں آبلوں سے بھر گئے۔مگر بخارا کے بادشاہ نے ایک قلندر کی تلاش نہیں چھوڑی۔آخر ایک دِن وہ بامُراد ہُوا اور اس نے سیہون پہنچ کر اپنا سرِ نیاز حضرت لعل شہباز قلندر رحمتہ اللّٰه علیہ کے قدموں پر رکھ دیا۔
سُلطان کیسے ہو؟ حضرت لعل شہباز قلندر رحمتہ اللّٰه علیہ نے اپنا دستِ مہربان والیء بخارا کے سر پر رکھ دیا۔
سُلطان ادھم نے عرض کی:
'' شیخ! بہت مُضطرب ہوں،دِل کی خلش چین سے بیٹھنے نہیں دیتی۔ ''
سُلطان ادھم اپنے آنسوؤں سے قلندر کے پائے مُبارک کو بھگوتا رہا۔
حضرت لعل شہباز قلندر رحمتہ اللّٰه علیہ نے فرمایا:
'' اگر سُلطانی چھوڑ کر فقیری مِل جائے تو یہ بہت سستا سودا ہو گا۔ ''
سُلطان ادھم نے عرض کی:
'' شیخ! میں تو نجات کا طالب ہوں۔ ''
سُلطان ادھم کی گریہ و زاری میں اضافہ ہو گیا تھا۔حضرت لعل شہباز قلندر رحمتہ اللّٰه علیہ نے فرمایا:
'' اس سے مانگتے رہو نجات مِل جائے گی۔ ''
اس کے بعد حضرت لعل شہباز قلندر رحمتہ اللّٰه علیہ نے سُلطان ادھم کو اپنے حلقہ بیعت میں شامل کر لیا۔پِھر طویل ریاضت و مجاہدات کے بعد پِیر و مُرشِد کے حُکم سے سُلطان ادھم خیرپور کی پہاڑی پر چِلّہ کش ہو گئے۔آپ نے باقی عمر یہیں گُزاری اور وفات کے بعد اسی مقام پر دفن کیے گئے۔سُلطان ادھم کا مزار مُبارک آج بھی خیرپور سندھ میں مرجع خلائق ہر خاص و عام ہے۔
نام کتاب = شانِ قلندر المعروف اڑھائی قلندر
صفحہ = ۳۰۳ تا ۳۰۷